طبی لحاظ سے دیگر جسمانی عوارض کی طرح ڈیپریشن کی تحقیق بروقت ہونی چاہیے اسی طرح جس طرح دیگر امراض کے شکار افراد کو علاج توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے‘ ویسے ہی ڈیپریشن کے مرض میں مبتلا افراد بھی اس حق رکھتے ہیں۔
مایوسی کو گناہ قرار دیا گیا ہے‘ انسان اپنے پر قنوطیت طاری کرلے‘ ہر خیر کے بُرے پہلو پر ہی نظر رکھے‘ خیر میں بھی شر کے پہلو تلاش کرتا رہے تو سمجھ لیجئے وہ ایک مایوس انسان ہے۔ دراصل ہر شر میں بھی خیر ہی پنہاں ہوتی ہے‘ مایوس شخص ہروقت خوف اور وحشت کا شکار رہتا ہے اسے رسی بھی سانپ نظر آتی ہے‘ ایک معمولی سی آواز پر اس کے دل کی دھڑکن میں اضافہ ہوجاتا ہے وہ ہروقت اور ہر لمحے ایک انجانے اور موہوم خوف کا شکار رہتا ہے‘ یہ انسان کی اندرونی کیفیت ہے جسے وہ اپنے آپ پر حاوی کرلیتا ہے حالانکہ چاہیے تو یہ کہ وہ ہر مصیبت اوردکھ کا سامنا کرنے کیلئے جوانمردوں کی طرح تیار رہے‘ ورنہ دنیا میں زندہ رہنا مشکل ہوجاتا ہے‘ خوشی اور غم انسانی زندگی کا لازمہ ہیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا قبیل المحالات ہے۔ اگر دنیا میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں اور دکھوں کا وجود ہی عنقا ہو تو ان خوشیوں میں بھی کوئی جاذبیت باقی نہیں رہ جاتی ۔ہاں! اتنا ضرور ہے کہ ہم خوشیوں کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں مگر نہ چاہتے ہوئے بھی دکھوں اور پریشانیوں سے ہمارا واسطہ پڑجاتا ہے‘ ہمارے مکمل صحت مند ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہم حقائق کو قبول کرتے ہوئے کوئی بھی تلخ یا افسوس ناک واقعہ بھلا کر خوشیوں کو تلاش کرنے کی سعی میں لگے رہیں جب انسان اپنے پر مایوسی طاری کرلیتا ہے تو اس صورت کو ڈیپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔ طبی ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈیپریشن کا مرض جس تناسب سے پھیلتا جارہا ہے اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ چند سالوں تک ہارٹ اٹیک کے بعد ڈیپریشن دنیا کا سب سے خطرناک مرض ہوگا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ڈیپریشن کے بارے میں عوام کی معلومات بہت کم ہیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے لوگوں کو اس خطرناک مرض کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے۔ ایک عام مشاہدے کے مطابق معاشرے کا ہر طبقہ یکساں اس مرض کی زد میں ہے‘ انتہائی غریب اور امیر لوگ اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ نوے فیصد لوگ یہ سوچ کر علاج کی طرف راغب نہیں ہوتے کہ مبادا لوگ یہ نہ سمجھ لیں وہ کسی ذہنی یا دماغی عارضہ میں مبتلا ہیں‘ صرف دس فیصد افراد ایسے ہیں جو اسے مرض کی حیثیت دیتے ہیں اور اپنا علاج کرانا ضروری خیال کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہمارے مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ ڈیپریشن کا شکار ہیں‘ چار خواتین میں سے ایک خاتون کو جبکہ سات مرد حضرات میں سے ایک کو اپنی زندگی میں ڈیپریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض طبی ماہرین کے مطابق ڈیپریشن صرف ایک ذہنی مرض نہیں بلکہ ذیابیطس کی مانند ایک حیاتیاتی مرض ہے‘ البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ اس مرض کی علامات نفسیاتی ہیں‘ دراصل اس کی وجہ انسانی ذہن میں ہونے والی حیاتیاتی کیمیائی تبدیلیاں ہیں جو اسے زندگی سے مایوس اور بیزار کردیتی ہیں۔
ڈیپریشن میں مبتلا افراد کے سر پر کسی بھی افسوسناک واقعہ یا کسی چیز کے واقع ہونے کا خوف مستقل طور پر طاری رہتا ہے یہ خوف وہ اس وقت تک محسوس کرتے رہتے ہیں جب تک کہ انہیں اس بات کا اچھی طرح احساس نہ ہوجائے جو وہ سوچ رہے ہیں وہ بالکل غلط ہے اور ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں یا پیش آنے والے حالات پر وہ کسی نہ کسی طرح ضرور قابو پالیں گے تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہیے کہ ڈیپریشن کے مریضوں کو پرامید زندگی کی طرف واپس لانا کوئی اتنا آسان کام بھی نہیں۔ طبی لحاظ سے دیگر جسمانی عوارض کی طرح ڈیپریشن کی تحقیق بروقت ہونی چاہیے اسی طرح جس طرح دیگر امراض کے شکار افراد کو علاج توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے‘ ویسے ہی ڈیپریشن کے مرض میں مبتلا افراد بھی اس کا حق رکھتے ہیں۔ مغربی ممالک کے لوگ اس لحاظ سے زیادہ باشعور ہیں وہاں ڈیپریشن کے شکار افراد کو علاج ومعالجہ اور نفسیاتی مدد حاصل کرنے کیلئے کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا وہاں بڑے سے بڑا آدمی بھی یہ چیز قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ وہ ڈیپریشن کا شکار ہے۔ ڈیپریشن کے معاملہ میں شاید دنیا بھر میں ہمارا ہی وہ واحد ملک ہے جہاں ڈیپریشن کو پاگل پن کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے بلکہ اس معاملے میں خاموش رہنے کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ ادھر ڈیپریشن کا مریض گھروالوں کیلئے بھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہتا وہ اپنے اندر کی خاموشی اور تکلیف دہ
آوازیں خود ہی سنتا رہتا ہے خاص طور پر خواتین اس مرض کو سمجھنے سے قطعی طور پر قاصر رہتی ہیں‘ شوہر سمیت خاندان کے قریبی افراد بھی اس کو بیمار تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے ان حالات میں مریضہ کو کسی ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ اکثر جگہوں پر ایسی کوششوں کی مزاحمت کی جاتی ہے چنانچہ خواتین اس مرض کے بارے میں جاننے سے قاصر رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیماری کی تشخیص نہ ہونے کے باعث اس مرض میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے دیکھا یہی گیا ہے کہ اکثر مریض خواتین نیند کی گولیاں کھا کھا کر وقت گزارتی رہتی ہیں کیونکہ اس کے علاوہ انہیں اور کوئی چارا نظر نہیں آتا نیند انہیں پریشان کرنے والی خاموش ’’آوازوں‘‘ سے وقتی طور پر نجات دے دیتی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق ڈیپریشن کے عارضے کیلئے مؤثر ادویات موجود ہیں تاہم اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی علاج کیلئے نیم حکیم کے شکنجے میں نہ آجائے عام ڈاکٹر بھی ڈیپریشن کے علاج میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں! ایک بے حد افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم بغیر نسخے کے ادویات حاصل کرکے بلاوجہ کھاتے رہتے ہیں‘ یہ ایک بڑی ہی احمقانہ بات ہے کہ چونکہ فلاں شخص فلاں دوائی استعمال کرنے سے بھلا چنگا ہوگیا تھا‘ اس لیے ہر ایک شخص کووہ دوا مناسب رہے گی جبکہ ہر مرض کی علامات مختلف ہوتی ہیں۔ یہ ماہر ڈاکٹر کا ہی کام ہے کہ وہ باقاعدہ تشخیص کرکے مریض کیلئے نسخہ تجویز کرے اور خود اپنایا کسی کا علاج کرنا بے حد خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ہارمونز کی تبدیلی بھی خواتین کو ڈیپریشن کا شکار کرسکتی ہے‘ ایسے شواہد بھی ملے ہیں جن میں ڈیپریشن کے دوران جسم کا مدافعتی نظام بھی خراب ہوجاتا ہے اس صورت میں مریض کے دل کی دھڑکن معمولی تیز ہوجاتی ہے۔ بلڈپریشر اور کولیسٹرول لیول میں اضافہ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ شریانوں میں خون کے کلاٹس بننے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں مختلف قسم کے امراض میں لوگ گرفتار ہوجاتے ہیں۔ ڈیپریشن کے اسباب بھی مختلف ہوتے ہیں۔ شروع میں ہی ڈاکٹر کو دکھانے سے مرض میں افاقہ ہوجاتا ہے‘ ورنہ صورت حال گھمبیر ہوتی چلی جاتی ہے۔ مرد حضرات تو اپنے حلقہ احباب میں اپنی پریشانیاں ڈسکس کرلیتے ہیں جبکہ خواتین گھروں میں ہی مصروف ہونے کے باعث کسی سے دل کی بات نہیں کرسکتیں وہ تنہائی کا شکار رہتی ہیں گھرمیں خواتین ایک سے زیادہ بھی ہوں تو بھی ایک دوسرے سے تعاون کے مظاہرے کم ہی نظرآتے ہیں۔ ٹینشن کے باعث آئے روز لڑائی جھگڑے بھی معمول بن چکے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں